’جنوری میں عام انتخابات 90 روزہ دستوری مدت سے باہر‘ الیکشن کمیشن کے اعلان پر پی ٹی آئی کا ردعمل
سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے بیان کو 'باعثِ حیرت' قرار دیا ہے۔
لائیو رپورٹنگ
time_stated_uk
ڈرامہ سیریل ’حادثہ‘ نشر کرنے کی مشروط اجازت، ریپ سین دکھانے پر پابندی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے نجی ٹی وی چینل جیو انٹرٹینمنٹ کو ڈرامہ سیریل ’حادثہ‘ نشر کرنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے پیمرا کا ڈرامہ نشر کرنے پر پابندی کا حکم معطل کر دیا ہے۔
مزید پڑھیےسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کی ہے۔
فُل کورٹ سماعت میں وقفے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’بینچوں کی تشکیل سے متعلق دونوں سینیئر ججز سے مشاورت کی۔ دونوں سینیئر ججز سردار طارق اور اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا۔ اس ہفتے بینچوں کی تشکیل اب میں کر سکوں گا۔‘
اس موقع پر وکیل خاوجہ طارق رحیم نے کہا ’اگر آپ نے آپس میں ہی طریقہ کار طے کرنا ہے تو یہی تو میرا کیس ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بینچ کیسے تشکیل دینے ہیں۔‘
سپریم کورٹ نے فریقین کو 25 ستمبر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ ’درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو عدالتی سوالات کے جوابات دینے ہیں۔‘
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا گیا، اٹارنی جنرل
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس سنہ 2019 سے اب تک نہیں ہوا اور زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے تو سرکار سے پیسہ کیوں لے رہے ہیں؟
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا گیا، جس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا۔
اس پر اٹارٹی جنرل نے چیف جسٹس کو کہا کہ ’بالکل آپ نے بہترین طریقے سے بتا دیا۔ جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہو گا۔‘
دوران سماعت چیف جسٹس فائز عیسی نے یہ بھی کہا کہ ضروری نہیں بار بار پارلیمنٹ پر سوال اٹھایا جائے اگر سپریم کورٹ میں اتنے مقدمے زیر التوا نہ ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ نہ کرتا۔
کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا: جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس سے مکالمہ
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا۔
جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اپیل کے لیے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں۔‘
اس پر جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الا احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے اور یہ قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے۔
ازخود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہوں، ایسے اختیارات نہیں چاہتا جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی
شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ از خود نوٹس سے متعلق اپنے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ازخود نوٹس لینے اور بینچ کی تشکیل کرنے کے اختیارات چیف جسٹس کے بجائے ججوں کی ایک تین رکنی کمیٹی کو دینے کی تجویز ہے جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے تاہم سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس قانون پر عملدرآمد روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا تھا۔
سوموار کو سماعت کے دوران نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسے اختیارات نہیں چاہتے جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو یا مفاد عامہ کی آڑ میں ذاتی ایجنڈے کو پروان چڑھایا جائے۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت حکم امتناعی برقرار رکھتی ہے تو بطور چیف جسٹس انھیں ہی فائدہ ہوگا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریکوڈیک کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
اس سے قبل درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی دلائل دینے آئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ رولز کو چھوڑیں، آئین کی بات کریں، کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں، اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں فل کورٹ: پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا، چیف جسٹس
شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’ہم نے پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر کیس کی کاروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کی جانب سے اس کیس میں فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ریمارکس دے کہ ’ہم میں سے کچھ لوگوں نے یہ کیس پہلے نہیں سنا۔‘
چیف جسٹس نے درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کو دلائل دینے کی دعوت دی جنھوں نے خود بھی فل کورٹ بنانے کے فیصلے کی حمایت کی۔
اس موقے پر جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے لیکن فل کورٹ اگر اس قانون کو درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اپنی درخواست ہر دھیان دیں، ’ہم نے ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔‘
خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے قوانین بنا رکھے تھے لیکن پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔
چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے سوال کیا کہ ’آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں۔‘
خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے تین ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔ وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ ’خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ’کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے سوال کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بےاخیتار نہیں کر دیا گیا؟‘
دوسری جانب جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟‘
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ ’کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بنچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو؟‘
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ’خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کے بجائے ائینی ترامیم نہیں ہونی چاہیے؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی یہ سوال کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ’آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ یہ قوانین خود بنا لے تو ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کرے تو غلط ہے؟‘
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ’کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟‘
اس موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ طارق رحیم سے مخاطب ہو کر ریمارکس دیے کہ ’مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے سو سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔‘
تاہم سوالات کا سلسلہ جاری رہا اور جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے وہ ٹھیک تھے؟ اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔‘
چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ وہ سوالات کے تحریری جواب جمع کرا سکتے ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں کو مسترد کیا جائے، وفاقی حکومت
شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے معاملے پر فل کورٹ میں جواب داخل کراتے ہوئے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ اس قانون کیخلاف دائر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جائے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کرائے جانے والے جواب میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے اور آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔
وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی اور سپریم کورٹ سے کوئی بھی اختیار واپس نہیں لیا گیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
آڈیو لیکس مقدمہ: حکومت جواب دے ورنہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو براہ راست فریق بنائیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی فون بگنگ اور آڈیو لیکس کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت جواب دے ورنہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو براہ راست فریق بنائیں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی پارلیمانی کمیٹی طلبی کے خلاف درخواست سمیت دیگر ایسی ہی نوعیت کی درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے معاملے کی سماعت ہوئی تو وزارت داخلہ اور پی ٹی اے نے اپنے تحریری جواب جمع کروا دیے۔
تاہم عدالت نے وزارت داخلہ اور پی ٹی اے کے تحریری جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور دوبارہ تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’جواب سے لگتا ہے کہ کوئی بھی ریکارڈنگ نہیں کر سکتا اور کسی کے پاس ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کرنے کی سہولت نہیں۔‘
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ تحریری جوابات میں عدالتی سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’یہ عدالت تحمل کا مظاہر کرتے ہوئے ایک آخری موقع دے رہی ہے، حکومت جواب دے ورنہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو براہ راست فریق بنائیں گے۔‘
اس سے قبل وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ’مسز بشری عمران کو ایف آئی اے روز بلا کر کہتا ہے کہ وائس ریکارڈ کرائیں تاکہ وائس میچنگ کرا سکیں۔‘
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’بشری بی بی کو بار بار طلب کر کے ہراساں کیا جا رہا ہے، ہماری استدعا ہے کہ ایف آئی اے کو بشری بی بی کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔‘
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’میں ایک انوسٹی گیشن ایجنسی کو انوسٹی گیشن سے نہیں روک سکتا، جب قانون کی کوئی خلاف ورزی ہو تو آپ اسے چیلنج کر سکتے ہیں۔‘
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کہتے ہیں تو میں آرڈر لکھوا دیتا ہوں کہ ایف آئی اے قانون کے مطابق کام کرے۔‘
عدالت نے سابق چیف جسٹس کے بیٹے کو پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کیے جانے کے سمن کی معطلی کے آرڈر میں ایک ماہ کی توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے اور یہ متنازع کیوں ہوا؟
30 مارچ کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلقہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کثرت رائے سے منظور کیا تھا جس کے تحت از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کو سونپا گیا تھا۔
اس سے قبل یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔ تاہم 13 اپریل کو سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کے خلاف عبوری حکم جاری کیا جس میں اس پر عملدرآمد تاحکم ثانی روک دیا گیا تھا۔
پی ڈی ایم حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا نہیں بلکہ اس حوالے سے مراحل کا تعین کرنا تھا۔ قانون میں کی جانے والی ترامیم کے مطابق بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز ہوں گے۔
یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پر مشتمل بینچ کو بھجوائے گی۔ اس قانون میں یہ ترمیم بھی شامل تھی کہ انٹرا کورٹ اپیل پر 14 روز میں سماعت ہوگی اور ارجنٹ معاملات کے کیسز 14 روز کے اندر اندر سماعت کے لیے مقرر ہوں گے۔
تاہم یہ بل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر ججوں کے درمیان بھی ازخود نوٹس اختیارات سمیت دیگر معاملات پر اختلاف رائے کھل کر سامنے آ رہا تھا۔
اس اختلاف نے اس وقت شدت اختیار کر لی تھی جب جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس محمد امین پر مشتمل سپریم کورٹ کے ہی ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک عدالتی ضوابط تشکیل نہیں دیے جاتے تب تک چیف جسٹس کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت لیے گئے از خود نوٹسز سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت ملتوی کر دیے جائے۔
اس سے قبل، صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے بھی اس بارے میں اعتراضات سامنے آئے تھے۔ اپنے نوٹ میں انھوں نے کہا تھا کہ ’اس عدالت کی آئین کی تشریح کے عام لوگوں اور آنے والی نسلوں پر اثرات ہیں، از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے، چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار کی آئینی تشریح بھی ضروری ہو گئی ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے بھی ایک نوٹ میں چیف جسٹس کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس لینے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت از خود نوٹس لینے کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ریفر کرنا مناسب نہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آٹھ ججز پر مشتمل ایک لارجر بینچ بنا کر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناعی جاری کر دیا جو ابھی تک برقرار ہے۔
اس آٹھ رکنی بینچ کے بارے میں وکلا کے ایک دھڑے کی رائے ہے کہ یہ جسٹس عمر عطا بندیال کے ہم خیال ججز تھے کیونکہ اس بینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز جن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کو بھی شامل نہیں کیا گیا تھا۔
پاکستان کی احمدیہ برادری: ’فتوی آ گیا ہے، اس لڑکی کو قبر سے نکالو کیونکہ ہمارے مُردوں کو عذاب ہوتا ہے‘
پاکستان میں رہنے والی احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ مخصوص قبرستانوں میں ان کی قبریں غیر محفوظ ہیں اور مشترکہ قبرستانوں میں بھی تدفین کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے پیاروں کو دور دراز علاقوں میں دفنانے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھیےسائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو نوٹس
شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ضمانت کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے سوموار کو مقدمے کی سماعت کی جس کے دوران عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے جلد سماعت کی درخواست کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’ایک طریقہ کار موجود ہے، اسی کے مطابق آئندہ پیر تک درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو جائے گی۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سپریم کورٹ آمد، گارڈ آف آنر لینے سے انکار
شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سوموار کے دن سپریم کورٹ پہنچے تو حسب روایت پولیس کا دستہ انھیں گارڈ آف آنر پیش کرنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔
تاہم نئے چیف جسٹس نے روایت سے ہٹتے ہوئے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کیا۔ قاضی فائز عیسی سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہوئے تو عدالتی عملہ بھی ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔
اس موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مختصر خطاب میں عدالتی عملے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تاکید کی کہ ’آپ لوگوں کا تعاون درکار ہو گا۔‘
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’لوگ خوشی سے سپریم کورٹ نہیں آتے، اپنے مسائل کو ختم کرنے آتے ہیں۔‘
’آپ آنے والے لوگوں سے ایسا سلوک کریں جو کوئی میزبان مہمان کے ساتھ کرتا ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’انصاف کے دروازے کھلے اور ہموار رکھیں، باقی کام ہمارا ہے۔‘
واضح رہے کہ آج بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسی فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر درخواستوں کی سماعت کریں گے جو ازخود نوٹس اور بینچ کی تشکیل کے اختیارات سے متعلقہ کیس ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ آج سماعت کرے گا
شہزاد ملک، بی بی سی اُردو ڈاٹ کام
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ آج (پیر) صبح پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ بار ایوسی ایشن نے درخواست دائر کر رکھی تھی جس پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناع جاری کیا تھا۔
اس قانون میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات سمیت مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی بنانے کا کہا گیا تھا۔
فل کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجازالحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
’شیخ رشید کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا‘
آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ سمیت مختلف مقدمات پر سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کو گرفتار کر لیا ہے
بی سی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ سمیت مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔
ادھر سابق وزیر شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کے مطابق شیخ رشید کو مغرب کی نماز کے بعد پنجاب پولیس کی بھاری نفری اور سول کپڑوں میں ملبوس افراد نے گرفتار کیا۔
انھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’شیخ رشید کے ساتھ میرے بڑے بھائی شیخ شاکر اور ایک ملازم شیخ عمران کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔‘
راشد شفیق کہتے ہیں کہ ’شیخ رشید نے پہلے دن سے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے، میں بھی نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں۔‘
’میں اعلیٰ اداروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں بتایا جائے شیخ رشید اور میرے بڑے بھائی اس وقت کہاں پر ہیں۔ وہ کسی تھانے میں کسی مقدمے میں نامزد نہیں ہیں۔
راشد شفیق کا کہنا ہے کہ ’ہم قانونی جنگ لڑیں گے، ہماری ذات پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔
’ہم نے ہمیشہ اس شہر میں شرافت اور اصولوں کی سیاست کی ہے۔ پنجاب پولیس نے ہائیکورٹ میں تحریر جمع کرائی کہ شیخ رشید ہمیں کسی کیس میں مطلوب نہیں ہیں۔‘
تحریک انصاف کا شیخ رشید کی گرفتاری کا دعویٰ، اسلام آباد پولیس کی تردید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل عبدالرازق نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے شیخ رشید اور ان کے دو بھتیجوں کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے حراست میں لیا ہے۔
تاہم اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی اپریشنز جمیل ملک کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے شیخ رشید کو گرفتار نہیں کیا۔
ادھر تحریک انصاف نے پلیٹ فارم ایکس پر اسے سیاسی انتقام اور ’فاشزم‘ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں جماعت کا کہنا ہے کہ ’نگران حکومت ہونے کے باوجود انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔‘
بی بی سی کی لائیو کوریج میں خوش آمدید
ایمی ایوارڈز کے لیے نامزد پاکستان کی دستاویزی فلم: ’معذوری کا شکار بچوں کے والدین ظالم نہیں مجبور ہوتے ہیں‘
زیاد نے اپنے ساتھی فلم میکر نادر صدیقی کے ساتھ بی بی سی اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اُن کی فلم کی کہانی سندھ کے تین ذہنی معذور بچوں پر مشتمل ہے، جو سپورٹس اور ایتھلیٹکس کے زریعے نہ صرف خود کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کی سوچ کو بھی بدلتے ہیں۔
مزید پڑھیےمہنگائی کے دور میں آمدنی کیسے بڑھائیں؟
مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان میں کچھ لوگ آمدنی بڑھانے کے مختلف طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیکن کیا ہر کسی کے لیے ایسا کر پانا ممکن بھی ہے؟ اور یہ کہ مہنگائی کے اس بحران کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟
مزید پڑھیے