الیکشن 2024: پاکستان کے عام انتخابات اور ان کے نتائج سے جڑے اہم حقائق و سوالات
پاکستان کی تاریخ کے 12ویں عام انتخابات میں عوام کو حق رائے دہی کے تحت اپنے نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع ملا۔
پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ جاری ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق مکمل نتائج آنے کا سلسلہ رات 10، 11 بجے سے شروع ہوگا۔
مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 79 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کل 855 حلقوں پر 17 ہزار 758 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اب تک قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلیوں کے تین حلقوں سمیت چار انتخابی حلقوں میں امیدواروں کی اموات کی وجہ سے پولنگ ملتوی کی جا چکی ہے۔
ان انتخابات کے حوالے سے چند اہم حقائق اور سوالات کا جواب اس رپورٹ میں دیا گیا ہے۔
کتنی سیٹوں پر انتخابات لڑے جا رہے ہیں؟
پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔
خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔
گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہے۔
25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔
یوں اس صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں۔
یعنی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔
کون سی بڑی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں؟
پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم یہ تین جماعتیں 2018 کے الیکشن میں بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ آزاد امیدواروں نے حاصل کیے تھے۔
اس بار الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہیں مل سکا تو اس جماعت کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے یوں پی ٹی آئی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہے گی جس کے لیے ان کا کسی دوسری جماعت سے الحاق ممکنہ ہے۔
اگر 2018 کے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے مجموعی طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جن کی تعداد ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اٹھاون ہزار نو سو تھی۔
دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تین سو چھپن ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پیپلز پارٹی انہتر لاکھ آٹھ سو پندرہ ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ آزاد امیدواران نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ متحدہ مجلس عمل پچیس لاکھ ووٹ حاصل کر کے پانچویں نمبر پر تھی۔
تاہم تحریک انصاف کو ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی سربراہ عمران خان کو سائفر، توشہ خانہ اور مبینہ طور پر دورانِ عدت نکاح کرنے سے متعلق مقدمات میں قید کی سزا سُنائی جا چکی ہے۔ وہ نااہلی کے سبب ذاتی طور پر انتخابی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔
ووٹ کون ڈال سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان کے بارہ کروڑ انہتر لاکھ اسی ہزار دو سو بہتر افراد بطور ووٹر رجسٹر ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 26 کے مطابق ایک شخص انتخابی علاقے میں بطور ووٹر اندراج کا حقدار ہو گا اگر وہ؛
(1) پاکستان کا شہری ہے
(2) عمر 18 سال سے کم نہ ہو
(3) انتخابی فہرستوں کی تیاری، نظرثانی یا تصحیح کے لیے دعوؤں، اعتراضات اور درخواستوں کو مدعو کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری دن تک کسی بھی وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو
(4) کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو
(5) سیکشن 27 کے تحت انتخابی
وضاحت/نوٹ: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کو بطور ووٹر رجسٹریشن کے مقصد کے لیے یا الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے درست سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ اس کی میعاد ختم ہو جائے۔
اپنا ووٹ کیسے چیک کیا جا سکتا ہے؟
ووٹ کی تصدیق کرنا بے حد آسان ہے، شاید ووٹنگ کے عمل میں سب سے آسان کام یہی ہے۔
ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق ووٹنگ لسٹ میں اپنی رجسٹریشن چیک کرنے کے دو طریقے ہیں۔ مگر ہم آپ کی معلومات کے لیے آپ کو ایک تیسرا طریقہ بھی بتائیں گے۔
پہلا طریقہ: ایس ایم ایس (SMS) سروس
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نادرا کے تعاون سے عوام کو ایس ایم ایس (SMS) سروس فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے شہری اپنی رجسٹریشن چیک کر سکتے ہیں۔
1۔ عوام شناختی کارڈ نمبر درج کر کے اور 8300 نمبر پر ٹیکسٹ میسج بھیج کر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
2۔ ایس ایم ایس کے جواب میں خود کار پیغام موصول ہو گا جس میں تین چیزیں ہوں گی، انتخابی علاقے کا نام، بلاک کوڈ اور سیریل نمبر۔
دوسرا طریقہ: ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفاتر میں موجود لسٹ
ہر رجسٹرڈ ووٹر اپنے متعلقہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفتر میں جا کر اپنی تفصیلات دیکھ سکتا ہے، جہاں حتمی ووٹر لسٹ دستیاب ہے۔ چاروں صوبوں میں ڈی ای سی کے دفاتر کے پتے یا رابطے کی معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
تیسرا طریقہ: ڈسپلے سینٹرز میں موجود لسٹ
ووٹرز ڈسپلے سنٹرز جا کر فہرستوں میں اپنے نام بھی چیک کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ مراکز سارا سال دستیاب نہیں ہوتے۔ ڈسپلے سینٹرز وہ مراکز ہیں جنھیں ای سی پی ملک کے مختلف علاقوں میں جب بھی ضرورت محسوس کرتا ہے تو تقریباً 21 دنوں کے لیے قائم کرتا ہے۔
جہاں تک پنجاب اور کے پی کے 2023 کے صوبائی انتخابات کا تعلق ہے تو اب ڈسپلے سینٹرز قائم نہیں کیے جائیں گے۔ ان ڈسپلے سینٹرز اور ڈسپلے پیریڈ کے بارے میں مزید تفصیل نیچے لکھی گئی ہے تاکہ قارئین بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
الیکشن کا حتمی نتیجہ کب آئے گا؟
آٹھ فروری کو پولنگ کا عمل صبح آٹھ بجے شروع ہو گا اور شام پانچ بجے تک جاری رہے گا۔ شام پانچ بجے پولنگ سٹیشنز کے دروازے بند کر دیے جائیں گے اور اس کے بعد وہی لوگ ووٹ کاسٹ کر سکیں گے جو پولنگ سٹیشنز کے احاطے میں موجود ہوں گے۔
انتخابی عمل مکمل ہوتے ہی ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ ہر پولنگ سٹیشن پر گنتی کا عمل ختم ہونے کے بعد نتائج الیکشن مینجمنٹ سسٹم کے تحت مرتب کیے جائیں گے اور ہر حلقے میں ان کا حتمی اعلان مذکورہ ریٹرننگ افسر کے دفتر سے کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق میڈیا اداروں کو پولنگ کا وقت ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد تک نتائج جاری نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ خیال رہے کہ یہ نتائج غیر حتمی اور غیر سرکاری ہوں گے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی جانب سے 31 جنوری کو الیکشن کمیشن کے ایک اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’ہماری کوشش ہو گی کہ ہم قانون کے مطابق حتمی نتائج کا اعلان رات ایک بجے تک کر دیں۔‘
خیال رہے کہ سنہ 2018 کے عام انتخابات میں نتائج سامنے آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تھی جس پر اس وقت کے الیکشن کمیشن کے حکام نے کہا تھا کہ نتائج کو مرتب کرنے والا آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی حلقوں کے نتائج کئی روز تک زیرِ التوا رہے تھے۔
الیکشن ایکٹ کا سیکشن 98 الیکشن کمیشن کو حتمی اور سرکاری نتائج 14 روز کے اندر شائع کرنے کا پابند کرتا ہے۔
الیکشن کے نتائج کیسے مرتب کیے جائیں گے؟
گذشتہ عام انتخابات میں نتائج مرتب کرنے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آر ٹی ایس سسٹم استعمال کیا تھا۔
تاہم اس بار الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے لیے حکام الیکشن مینجمنٹ سسٹم استعمال کریں گے۔ حکام کے مطابق اس بار نئے نظام کے تحت الیکشن نتائج کا سلسلہ نامزدگی فارم سے ہی شروع ہو گیا ہے۔
اب یہ تمام تفصیلات نئے نظام میں درج کی جا رہی ہیں اور آخر میں انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد فارم 45 پر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ مرتب کیا جانا ہے اور فارم 47 پر پورے حلقے کا نتیجہ لکھا جائے گا۔
ملک بھر سے پریزائڈنگ افسران (پی اوز) پولنگ سٹیشن کا نتیجہ ریٹرنگ افسران (آر اوز) کو بھیجیں گے۔
ان کے موبائل پر ای ایم ایس کی ایپ انسٹال کی جا چکی ہے، جس کے ذریعے وہ فارم 45 کی تصویر آر اوز کو بھیجیں گے۔ اگر کسی وجہ سے یہ تصویر ’سینڈ‘ نہ بھی ہو سکے تو پھر ’جیو ٹیگنگ‘ کر کے اس تصویر کے بنانے اور شیئر کرنے کا وقت معلوم کیا جا سکے گا۔ جیو ٹیگنگ کے لیے پی اوز کے موبائل کا فرانزک کیا جائے گا۔
ہر پولنگ سٹیشن پر سینیئر پی او اور آر او کے پاس یہ موبائل دستیاب ہوں گے جن میں الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کی گئی ہے۔
ایک موبائل گم ہونے یا خراب کی صورت میں دوسرا موبائل استعمال کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق اگر کسی وجہ سے یہ موبائل سرے سے کام ہی نہ کریں تو بھی انتخابی نتائج کے عمل میں تاخیر ضرور آ سکتی ہے مگر اس سے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔
پی اوز کو کہا گیا ہے کہ وہ فارم 45 پُر کرنے سے قبل ایک سادہ کاغذ پر نتائج مرتب کریں اور پھر انھیں حتمی فارم 45 پر درج کریں اور اس کی تصویر بنا کر آر اوز کو بھیج دیں۔
نتیجے کی تصویر شیئر کرنے کے علاوہ پی او کو خود نتیجہ لے کر آراو کے پاس جانا ہوگا۔ ریٹرنگ افسران ایک میڈیا وال یا بڑی سکرین کے ذریعے ان نتائج کا اعلان کریں گے۔ اس بار الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ اس سارے عمل میں براہ راست شریک نہیں ہو گا۔
ہر آر او کو صوبائی اسمبلی کے حلقے کا نتیجہ تیار کرنے کے لیے تین جبکہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے چار ڈیٹا آپریٹرز میسر ہوں گے، جن کے پاس لیپ ٹاپ ہوں گے اور وہ مسلسل ان نتائج کو مرتب کر رہے ہوں گے۔
ملک بھر سے بہترین صلاحیت کے تقریباً 3600 ڈیٹا آپریٹرز ان نتائج کو مرتب کرنے کے عمل میں شامل ہوں گے۔
ہر آر او کے پاس نادرا کا ایک اہلکار بھی ہو گا، جسے ’ٹربل شوٹر‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اہلکار کسی بھی تکنیکی خرابی کی صورت میں ڈیٹا آپریٹرز کی مدد کرے گا۔
اگر سافٹ ویئر میں کوئی پیچیدگی یا مسئلہ ہوا تو معاہدے کے تحت اس کی ذمہ داری اسے تیار کرنے والی کمپنی کے کندھوں پر ہو گی۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں حکومت بنانے کے لیے کتنی نشستیں درکار ہیں؟
ملک بھر میں 8 فروری کو قومی اسمبلی کی کل 266 میں سے 265 جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی 593 میں سے 590 نشستوں پر الیکشن ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق اب تک قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلیوں کے تین حلقوں سمیت چار انتخابی حلقوں میں امیدواروں کی اموات کی وجہ سے پولنگ ملتوی کی جا چکی ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 باجوڑ، خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 22 باجوڑ اور پی کے 91 کوہاٹ اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 266 رحیم یار خان میں امیدواروں کی وفات کی وجہ سے پولنگ ملتوی کی گئی ہے۔
خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی کل نشستیں 336 ہیں۔
یعنی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے اس بار کم سے کم 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔
سندھ
پاکستان کے صوبہ سندھ میں صوبائی اسمبلی کی 130 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔
صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی کُل تعداد 168 ہے جس میں خواتین کی 29 اور اقلیتوں کی 9 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔
صوبے میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو اسمبلی میں موجود 85 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔
پنجاب
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی کل 297 میں سے 296 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں جبکہ اسی اسمبلی میں خواتین کی 66 اور اقلیتوں کی آٹھ مخصوص نشستیں بھی موجود ہیں۔
پنجاب کی 371 نشستوں پر مشتمل اسمبلی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے کم سے کم 186 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔
خیبر پختونخوا
خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کی 115 میں سے 113 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں جبکہ اسی اسمبلی میں خواتین کی 26 اور اقلیتوں کی چار مخصوص نشستیں بھی موجود ہیں۔
خیبرپختونخوا کی 145 نشستوں پر مشتمل اسمبلی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے کم سے کم 73 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔
بلوچستان
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 65 ہے۔ اسی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 11 اور اقلیتی نشستوں کی تعداد تین ہے۔
اس صوبے میں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کو 33 اراکین کی حمایت حاصل ہو گی۔
قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں کیسے ملتی ہیں؟
قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 60 ہے۔ خواتین کی ایک مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سیاست جماعت کے پاس کم سے کم پانچ عام نشستیں ہونا ضروری ہیں۔
اس ایوان میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔ اسمبلی میں ایک قلیتی مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کم سے کم 27 عام نشستیں ہونا ضروری ہیں۔
وزیر اعظم کا انتخاب کب اور کیسے ہو گا؟
انتخابات کے بعد 30 ویں دن قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس بُلانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر صدرِ مملکت چاہیں تو اس اجلاس کو پہلے بھی بُلایا جا سکتا ہے۔
نئی اسمبلی میں سب سے پہلے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کہ بعد ایوان کے کسی بھی مسلمان رُکن کو ووٹنگ کے ذریعے قائدِ ایوان یا وزیرِ اعظم منتخب کیا جاتا ہے۔
کسی بھی رکن کو پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لیے اسمبلی میں کم سے کم 169 اراکین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔