مشکلات کے باوجود ہر بار اقتدار کا راستہ ڈھونڈ لینے والے نواز شریف چوتھی مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم بنیں گے؟
ماضی میں پاکستان کے تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف گذشتہ برس ہی لندن سے خود ساختہ جلاوطنِی کاٹ کر اپنے ملک لوٹے ہیں لیکن اب وہ واضح طور پر آٹھ فروری کے انتخابات جیتنے والی شخصیت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
حالیہ دور میں پچھلی تین دہائیوں سے پاکستانی سیاست پر راج کرنے والے نواز شریف کے دوبارہ اقتدار کے اتنے قریب پہنچ جانے کا تصور شاید کچھ ہی لوگوں نے کیا ہوگا۔
ان کی وزارتِ اعظمیٰ کا آخری دور کرپشن کیس میں سزا پر ختم ہوا تھا اور اس سے قبل انھیں 1999 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں وزیرِ اعظم کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔
لیکن پاکستانی فوج کے مخالف کے طور پر سمجھے جانے والے نواز شریف ایک بار پھر ڈرامائی طریقے سے ملک کی پارلیمانی سیاست میں کامیاب واپسی کے قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔
تھنک ٹینک وِلسن سینٹر کے جنوبی ایشیا وِنگ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’نواز شریف ملک کے اگلے وزیرِ اعظم بننے کے لیے مرکزی امیدوار ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ بہت مقبول ہیں بلکہ اس لیے کیونکہ انھوں نے اپنے پتّے صحیح کھیلے ہیں۔‘
نواز شریف کے حریف اور ماضیِ قریب میں فوج کی حمایت رکھنے والے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اب جیل میں ہیں اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو ملک بھر میں مختلف پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
نواز شریف کی سیاسی تاریخ
آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اقتدار سے متعدد بار نکالے جانے کے باوجود نواز شریف دوبارہ ملک کے طاقتور ترین عہدے کی طرف جانے واے راستے ڈھونڈنے میں مہارت رکھتے ہیں اور وہ ایسا ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں۔
انھیں 1999 میں دوسری مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکالا گیا تھا۔ لیکن وہ 2013 میں تیسری مرتبہ پھر انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وزیرِ اعظم بن گئے۔
وہ پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخی لمحہ اس لیے تھا کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی ہوئی ہو۔
لیکن نواز شریف کا تیسرا دورِ اقتدار دُشواریوں سے بھرا رہا۔ ان کی حکومت کی ابتدا اسلام آباد میں تقریباً چھ مہینے جاری رہنے والے دھرنے سے ہوئی اور اس کا اختتام عدالت میں کرپشن کیس پر ہوا۔ اسی مقدمے کی بنیاد پر نواز شریف کو جولائی 2017 میں نااہل قرار دیا گیا۔
اس کے بعد نواز شریف نے پاکستان کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔
جولائی 2018 میں پاکستان کی ایک عدالت نے انھیں کرپشن کیس میں قصوروار قرار دیا اور انھیں 10 سال قید کی سزا سُنا دی گئی۔ لیکن دو مہینے بعد ایک اپیل کے نتیجے میں عدالت نے مقدمے کا فیصلہ ہونے تک ان کی سزا معطل کر دی۔
دسمبر 2018 میں انھیں کرپشن کے ایک اور مقدمے میں سات سال کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد نواز شریف علاج کے لیے برطانیہ جانے کے لیے ضمانت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آئے۔ بالآخر 2019 میں انھیں ضمانت مل گئی جس کے بعد انھیں لندن جانے کی اجازت دی گئی۔
نواز شریف لندن میں آرائشوں سے آراستہ فلیٹ میں اکتوبر میں اپنی پاکستان واپسی تک مقیم رہے۔ اپنی غیرموجودگی میں بھی نواز شریف پچھلے 35 سالوں میں پاکستانی سیاست میں ایک بھاری بھرکم اور مرکزی شخصیت رہے ہیں۔
نواز شریف کی سیاست کا ابتدائی دور
نواز شریف 1949 میں ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی سیاست کی شروعات ایک شہری حلقے سے کی۔
وہ پہلی مرتبہ قومی منظرنامے پر سابق فوجی آمر ضیاالحق کے دورِ حکومت میں آئے جب انھیں 1985 سے 1990 تک پہلے پنجاب کا وزیرِ خزانہ اور بعد میں وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا۔
ملک کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے مطابق نواز شریف کوئی متاثر کُن سیاسی شخصیت نہیں لیکن انھوں نے ہمیشہ خود کو ایک ماہر ایڈمنسٹریٹر یا منتظم ثابت کیا ہے۔
نواز شریف 1990 میں پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے لیکن ان کی حکومت 1993 میں برطرف کر دی گئی۔ اس کے بعد اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم بنیں۔
نواز شریف سٹیل کے کارخانوں کی مالک کمپنی اتّفاق گروپ کے مالک اور پاکستان کی امیر ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک ہیں۔
نواز شریف کو پاکستان پر 1977 سے 1988 تک حکمرانی کرنے والے فوجی آمر ضیا الحق کا جانشین بھی کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان سے باہر وہ 1998 میں ملک کو جوہری طاقت بنانے والے سیاست دان کے طور پر مشہور ہیں۔
فوجی بغاوت
نواز شریف 1997 میں دوسری مرتبہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے اور ایسا لگا کہ ملک کے تمام اداروں پر ان کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے لیکن ان اداروں میں فوج شامل نہیں تھی۔
دوسرے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ہاتھوں تنگ نواز شریف نے ایک ایسی آئینی ترمیم منظور کروانی کی کوشش بھی کی جس کے نتیجے میں ملک میں شرعی قانون نافذ ہوجاتا۔
نواز شریف نے ملک میں طاقت کے مرکزوں کو بھی چیلنج کرنے کی کوشش کی اور ان کے حامیوں نے سپریم کورٹ پر بھی دھاوا بولا۔ اسی دوران نواز شریف فوج سے بھی پنجہ آزمائی کرتے ہوئے نظر آئے۔
لیکن 1999 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز شریف اقتدار سے محروم ہوئے اور اس سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان میں فوج کی طاقت کم کرنے کی کوشش خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
فوجی بغاوت کے نتیجے میں نواز شریف گرفتار ہوئے اور انھیں طیارہ ہائی جیکنگ اور دہشتگردی کے مقدمے میں عمر قید کی سزا سُنا دی گئی۔ انھیں کرپشن کے مقدمے میں بھی سزا ہوئی اور انھیں تاحیات نااہل بھی قرار دیا گیا۔
لیکن سعودی عرب کی جانب سے کی گئی ایک مبینہ ڈیل کے نتیجے میں نواز شریف اور ان کا خاندان محفوظ رہے۔ وہ اور ان کے خاندان کے 40 اراکین سعودی عرب چلے گئے جہاں انھیں 10 برس کے لیے رہنا تھا۔
اس وقت اسلام آباد میں بی بی سی کے نمائندے اُون بینیٹ جونس بتاتے ہیں کہ جب نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا تو پاکستانیوں کی ایک تعداد نے سُکھ کا سانس لیا۔ یہ لوگ انھیں کرپٹ، نااہل اور طاقت کا بھوکا سمجھتے تھے۔
کرپشن کے الزامات
نواز شریف کی پاکستان کی سیاست سے بے دخلی ان کی 2007 میں فوج کے ساتھ ڈیل کے بعد ملک واپسی کی صورت میں ختم ہوئی۔
پاکستان واپسی کے بعد انھوں نے برداشت سے اپوزیشن میں اپنا وقت گزارا۔ ان کی جماعت ن لیگ 2008 کے انتخابات میں پارلیمنٹ مِیں تقریباً 25 فیصد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
ملک میں 2013 کے انتخابات سے قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ ملک کے اگلے وزیراعظم نواز شریف ہی ہوں گے لیکن اس جیت کے پیمانے نے سب کو حیران کر دیا۔
ان کو اب پنجاب میں سابق کرکٹر عمران خان کی جماعت کی طرف سے چیلنج کا سامنا تھا اور یہی عمران خان 2018 میں پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔
نواز شریف جب 2013 میں ملک کے وزیراعظم بنے تو عمران خان کی جماعت نے تقریباً چھ مہینوں تک اسلام آباد کا محاصرہ کیے رکھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ن لیگ پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔
عوامی طور پر لگائے گئے الزامات کے مطابق اسلام آباد کا محاصرہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اندر موجود کچھ عناصر کے ایما پر کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ نواز شریف پر دباؤ بڑھا کر انھیں انڈیا سے تعلقات بہتر کرنے سے روکنا چاہتی تھی۔
نواز شریف نے اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو 'ایشین ٹائیگر' بنا دیں گے، ملک کو نیا انفراسٹکچر دیں گے اور 'کرپشن کو برداشت نہیں کریں گے۔‘
لیکن پاکستان کو درپیش مشکلات بڑھتی رہیں اور چین اور پاکستان اقتصادی راہداری کے علاوہ کوئی بھی پروجیکٹ کامیاب ہوتا دکھانی نہیں دیا۔
2016 میں پانامہ پیپرز لیک کے نتیجے میں نواز شریف پر کرپشن کے الزامات عائد ہوئے اور انھیں سپریم کورٹ کی جانب سے تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ الزامات نواز شریف کے خاندان کی ملکیت میں موجود لندن میں فلیٹس کے حوالے سے تھے۔ سوالات اٹھائے گئے کہ ان اپارٹمنٹس کو خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟
نواز شریف نے تمام الزامات کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تاہم چھ جولائی 2018 میں انھیں ان کی غیرموجودگی میں کرپشن کے مقدمے میں 10 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔ جب انھیں سزا سُنائی گئی تو وہ لندن میں اپنی بیمار اہلیہ کے پاس موجود تھے۔
نواز شریف کے ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی سزا سُنائی گئی تھی۔
قسمت کی دیوی مہربان
نواز شریف نے سزائیں سنائے جانے کے بعد لندن میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ پاکستان میں ان کے حریف عمران خان حکومت کر رہے تھے۔ لیکن عمران خان کا دورِ حکومت بھی طلاطم خیز رہا اور فوج کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہوتے گئے۔
سنہ 2022 میں عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیرِ اعظم کی کرسی سے ہٹا دیا گیا اور پھر نواز شریف کی پارٹی ن لیگ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی جس کی قیادت ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کر رہے تھے۔
عمران خان کے زوال کے بعد سے ہی قسمت کی دیوی ن لیگ پر مہربان نظر آئی اور نواز شریف کی جانب سے بھی سیاسی سرگرمیوں کی رفتار بڑھا دی گئی۔
وہ سنہ 2023 میں پاکستان واپس آئے اور اسے ایک تاریخی واپسی سے تعبیر کیا گيا۔ اس کے بعد کے ایام میں وہ اپنے خلاف جاری تمام قانونی مقدمات کو ختم کروانے میں کامیاب رہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اگلے انتخابات میں ان کی جیت یقینی ہے کیونکہ نواز شریف اور ان کی پارٹی کے خلاف ملک میں بہت ناراضی بھی پائی جاتی ہے کیونکہ انھیں پاکستان کی معاشی بدحالی کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
نواز شریف اپنے آپ پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے بھی بہت زیادہ داغدار ہیں۔
چیٹم ہاؤس کے ایشیا پیسیفک پروگرام کی ایسوسی ایٹ فیلو ڈاکٹر فرزانہ شیخ نے کہا کہ ’نواز شریف انتخابات جیتنے جا رہے ہیں لیکن کوئی بھی پارٹی واقعتاً مکمل اکثریت لیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہر چیز نواز شریف کے وزیر اعظم بننے، یا سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ کے طور پر سامنے آنے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کے پاس کس قسم کی اکثریت ہوگی جس کے ساتھ وہ کام کریں گے۔
کیا نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیرِ اعظم بنیں گے؟
پاکستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور نواز شریف اپنے آپ کو ایک ایسے تجربہ کار امیدوار کے طور پر پیش کر رہے ہیں جس کے پاس تین بار وزیرِ اعظم کہ عہدے پر فائز رہنے کا تجربہ ہے۔
وہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے اور اس کی ’کشتی کی سمت درست‘ کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کے حامیوں کو امید ہے کہ ان کا ملک کو استحکام دینے، تجربے اور خود انحصاری کا بیانیہ انھیں ووٹ دلوائے گا اور فوج کو بھی ان کی اور ان کی پارٹی کی طرف سے اطمینان بخشے گا۔‘
نواز شریف کو آگے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا اور اس میں معاشی بحران سرِفہرست ہے جس کا الزام ان ہی کی جماعت پر لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی خدشات پائے جا رہے ہیں کہ ان کے مرکزی حریف کی جیل میں موجودگی کے سبب شاید ملک میں انتخابات شفاف نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر فرزانہ شیخ کہتی ہیں کہ ’نواز شریف مشکل میں نظر آ رہے ہیں کیونکہ ان کے بھائی کی قیادت میں ان کی جماعت گذشتہ حکومت میں سینیئر پارٹنر تھی جس کو بہت سی ایسی معاشی پالیسیاں نافذ کرنا پڑھیں جس کا اثر ملک کے عوام پر اچھا نہیں پڑا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’نواز شریف اور ان کی جماعت کو معاشی مشکلات پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔‘
نواز شریف کو درپیش چیلینجز میں ایک چیلنج پاکستانی فوج بھی ہے جس کا ملکی سیاست میں ایک اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
جب نواز شرف جلاوطنی کاٹ رہے تھے تو وہ متعدد موقعوں پر فوج کے خلاف بولتے ہوئے نظر آتے تھے۔ خاص طور پر انھوں نے آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کے سابق سربراہان پر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے الزامات لگائے۔ ان دونوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
نواز شریف ملک کی عدلیہ پر بھی سخت تنقید کیا کرتے تھے اور الزامات عائد کیا کرتے تھے کہ انھیں ’بوگس مقدمات‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
انھوں نے کہا تھا ان ہی فیصلوں کے سبب جمہوریت کو نقصان پہنچا جس کے سبب پاکستان کے وزرائے اعظم اپنے عہدے پر آئینی مدت مکمل نہیں کر پاتے۔
پاکستان کی فوج نے کبھی کچھ ایسا نہیں کہا کہ وہ نواز شریف یا عمران خان یا کسی اور سیاسی رہنما کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان کی فوج نے یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں مداخلت نہیں کرتی۔
لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے اپنی واپسی کو آسان بنانے کے لیے فوج کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ انھیں وطن واپسی کے بعد بہت زیادہ قانونی ریلیف ملا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک طاقتور فوج جو عدلیہ پر مبینہ طور پر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے کے قریب ہو گئے ہیں۔
مائیکل کوگل میں نواز شریف کی کامیابی کی ’ستم ظریفی‘ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت وہ اونچی اڑان میں ہیں لیکن وہ فوج کے ساتھ مسلسل جھگڑتے رہے ہیں۔ ’[لیکن] پاکستان میں اگر آپ ایک سیاسی رہنما ہیں اور آپ کے پیچھے فوج ہے، تو آپ کی انتخابی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‘