اسلام آباد پولیس کی سکول چلو مہم: ’پولیس میرے بیٹے کو نہ پکڑتی تو پتا نہ چلتا کہ وہ نشہ کرتا ہے‘
- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
’میرا بیٹا تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی بھی گنوا بیٹھتا اگر مجھے علم نہ ہوتا کہ وہ نشے کی لت میں پڑ چکا ہے۔‘
یہ کہنا ہے اسلام آباد کے ایک سرکاری ملازم کا جن کا بیٹا شہر کے ایک ایک سرکاری سکول میں زیرتعلیم ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا بیٹا دسویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ کچھ دن سے وہ کچھ کھویا کھویا سا رہتا تھا اور اس کی طبیعت میں چِڑچِڑا پن بھی بڑھتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ وہ ضدی بھی ہوتا جا رہا تھا۔‘
’مجھ سمیت گھر والے یہ سمجھتے رہے کہ شاید بڑی کلاس ہونے کی وجہ سے اس پر پڑھائی کا دباؤ ہے اس لیے اس کے مزاج میں تلخی آ گئی ہے۔‘
ان کے بقول ان کے بیٹے کی طرف سے جیب خرچ میں اضافے کے تقاضے میں بھی شدّت آتی جا رہی تھی۔
انھوں نے کہا کہ انھیں اپنے بیٹے کے نشے کی لت میں پڑنے کا علم اس وقت ہوا جب سکول کے ہیڈ ماسٹر نے فون کر کے انھیں سکول میں بلایا۔
وہ کہتے ہیں کہ جب وہ سکول پہنچے تو ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں اسلام آباد پولیس کے تین اہلکار بھی موجود تھے۔
انھوں نے کہا ’ہیڈ ماسٹر نے بتایا کہ ان کا بیٹا سکول میں حاضری لگانے کے بعد غائب ہوجاتا تھا اور پھر آخری پریڈ میں واپس سکول آ جاتا تھا۔‘
سرکاری افسر بتاتے ہیں کہ سکول کے ہیڈ ماسٹر کے بقول ان کے بیٹے کو گذشتہ دس دنوں میں پولیس اہلکار دوسری مرتبہ پکڑ کر سکول لے کر آئے جس کے بعد انھیں (والد) سکول میں طلب کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں ہی پولیس اہلکاروں نے جب اُن کے بیٹے سے اپنے روایتی انداز میں پوچھ گچھ کی تو بیٹے نے بتایا کہ وہ گذشتہ دو سال سے سیگرٹ نوشی کرتا ہے اور گذشتہ چند ماہ سے وہ ایک گروہ کے دو افراد سے قریبی مارکیٹ میں جا کر چرس نشہ حاصل کر رہا تھا۔
اسی نشے کو پورا کرنے کے لیے وہ سکول کی دیوار پھلانگ کر نکل جاتا اور پورا پورا دن سکول سے غائب رہتا۔
انھوں نے کہا کہ اگر پولیس اہلکار ان کے بیٹے کو آوارہ گردی کرنے پر پکڑ کر سکول میں واپس نہ لاتے تو انھیں یہ کبھی معلوم بھی نہ ہو پاتا کہ ان کا بیٹا نشے کی لت میں پڑ جکا تھا۔
طلبا کو تعلیمی اداروں میں واپس بھیجنے کی مہم
وفاقی دارالحکومت کی پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں کے دوران اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے باہر منشیات بیچنے والے تین درجن سے زائد افراد کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے منشیات برآمد کی گئی ہے۔
ان افراد کے خلاف کارروائی سکول کے اوقات کے دوران سکولوں اور کالجز سے باہر رہنے والے طلبا کو ان کے متعلقہ تعلیمی اداوں میں واپس بھیجنے سے متعلق وفاقی دارالحکومت کی پولیس کی جانب سے شروع کی گئی مہم کے دوران کی گئی۔
اسلام آباد پولیس حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس کے تحت سکول اور کالجز کے تعلیمی اوقات کے دوران عوامی مقامات اور پارکوں میں سکول یونیفارم میں آوارہ پھرنے والے طلبا کو ان کے متعلقہ سکولز اور کالجز میں پہنچایا جاتا ہے۔
سابق وفاقی وزیر داخلہ شہریار آفریدی نے ایک تقریب کے دوران اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں قابل ذکر حد تک منشیات کا استعمال ہوتا ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز جمیل ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ مختلف اداروں کی طرف سے ان کے پاس ایسی رپورٹس آئی تھیں جس کے تحت منشیات فروش تعلیمی اداروں کے باہر طلبا میں منشیات فروخت کرتے ہیں اور یہ کام زیادہ تر ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پر تعلیمی ادارے زیادہ تعداد میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پولیس اگر چاہے تو ایسے بچوں کو جو کہ سکول ٹائمنگ کے دوران مختلف پارکوں، مارکیٹوں اور دیگر مقامی مقامات پر بلاوجہ گھومتے ہیں، ان کو آوارہ گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے حولات میں بند کر سکتی ہ لیکن ایسا کرنے سے ان بچوں کا مستقبل بھی خراب ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔
ڈولفن اہلکاروں کی اضافی ذمہ داری
ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس میں ڈولفن فورس کا سکواڈ بنایا ہوا ہے جن میں ایک ہزار سے زیادہ پولیس اہلکار ہیں اور یہ اہلکار دن کی تین شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس فورس میں شامل پولیس اہلکاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ڈیوٹی کے دوران مختلف پارکوں کے علاوہ دیگر عوامی مقامات پر پیٹرولنگ کریں۔
ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی طرف سے ڈولفن فورس میں شامل پولیس اہلکاروں کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی ہے کہ وہ عوامی مقامات پر سکول ٹائمنگ کے دوران یونیفارم میں گھومنے والے بچوں کو پولیس کی گاڑی میں بیٹھا کر ان کے متعقلہ سکول یا کالج میں چھوڑ کر آئیں۔
جمیل ملک کا کہنا تھا کہ اب تک سینکڑوں بچوں کو ڈولفن فورس کے اہلکاروں نے ان طلبا کے متعلقہ تعلیمی اداروں میں چھوڑ کر آئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکار ان بچوں کو جب ان کے تعلیمی اداروں میں واپس چھوڑ کر آتے ہیں تو وہ اس سکول یا کالج کے پرنسپل کے پاس جاتے ہیں اور ان کو ان طلبا کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں جنہیں آوارہ گردی کرنے پر پولیس اہلکار اپنے ساتھ لے کر ائے تھے۔
ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار ایسے بچوں کے کوائف بھی اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ اگر دوسری مرتبہ وہی بچہ عوامی مقامات پر دوبارہ آوارہ گردی کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کے سکول کے پرنسپل کے علاوہ اس بچے کے والد کو بھی طلب کر کے انھیں اس کے بچے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
انھوں نےکہا کہ اب تک پچاس سے زائد ایسے بچے ہیں جنہیں ڈولفن پولیس کے اہلکاروں نے ایک سے زیادہ مرتبہ آوارہ گردی کرنے پر اپنے ساتھ پولیس کی گاڑی میں بیٹھا کر ان کے تعلیمی اداروں میں چھوڑا اور پھر ان کے والد یا سرپرست کو بلا کر انھیں اس بارے میں بتایا گیا۔
جمیل ملک کا کہنا تھا ابھی تک جن بچوں کو سکول اوقات کے دوران ان کے تعلیمی اداروں میں واپس چھوڑا گیا ان میں سے زیادہ تر تعداد کالج کے طلبا کی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسلام آباد میں امن وامان کی صورت حال اتنی آئیڈیل ہے کہ پولیس سارے کام چھوڑ کر آوارہ گردی کرنے والے طلبا کو سکول چھوڑ کر آ رہی ہے؟
اس پر ایس ایس پی آپریشز کا کہنا تھا کہ پولیس جرائم کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے شہریوں کو سوشل سروس بھی فراہم کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے اپنے تئیں اس ذمہ داری کو اٹھایا ہے تاکہ ان بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کو یہ سوشل سروس فراہم کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ان طلبا کو منشیات فروشوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ انھیں جنسی ہراسانی سے بھی بچانا ہے۔