شریف خاندان اور بلاول بھٹو کا ’مشن لاہور‘: کیا پنجاب کی سیاست مستقبل کے وزیراعظم کا فیصلہ کرتی ہے؟
- مصنف, اعظم خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جہاں ایک طرف سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شہباز شریف انتخابی میدان میں اترے ہیں وہیں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے فرزند اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کے نواسے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی لاہور کو اپنا حلقہ انتخاب چنا ہے۔
مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ دوسری طرف سابق صدر اور بلاول بھٹو کے والد آصف زرداری نے بھی اپنے بیٹے اور پارٹی کے لیے لاہور میں ڈیرے لگا رکھے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی انتخابی سیاست میں پنجاب کی سیاست کسی بھی جماعت کے اسلام آباد کی طرف رخ کا تعین کر دیتی ہے اور شاید یہی وجہ کہ اس وقت ہر سیاسی جماعت ہی پنجاب کی سیاست پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہے۔
ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ جو سیاسی جماعت ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنا بیانیہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے وہی انتخابات میں اکثریت لے کر اسلام آباد میں بھی حکومت بنانے کے قابل بن جاتی ہے لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ پورا پنجاب ہی کسی جماعت نے زیر کیا ہو تو تب ہی وہ حکومت بنانے میں کامیاب ٹھہری ہو۔
انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق پنجاب کے مختلف حصوں کی سیاست الگ الگ اہمیت کی حامل ہے۔
ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ مجموعی اکثریت تو پنجاب میں کسی اور جماعت کو ملی مگر پنجاب کے کسی دوسرے حصے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مرکز میں حکومت سازی میں کامیاب ہوئی۔
اگر پاکستان کے ماضی میں ہونے والے عام انتخابات پر نظر دوڑائیں تو اس تاثر کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ پنجاب میں سیاسی نقب زنی کرنے والی جماعت وفاق میں بھی اقتدار کے گھوڑے پر سوار نظر آتی ہے۔
بلاول بھٹو کی لاہور سے انتخابی دوڑ کو سنہ 1970 کے عام انتخابات سے علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا جب ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ، حیدر آباد اور ٹھٹھہ سے نکل کر پنجاب میں لاہور اور ملتان سے بھی قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور پھر ملک کے حکمران بھی بنے۔
اس کی سادہ سی سائنس تو یہی ہے کہ قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے 53 فیصد یعنی 141 نشستیں پنجاب کے حصے میں آتی ہیں یعنی اگر کوئی جماعت پنجاب میں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر اس کا نتیجہ ملک کی حکمرانی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
مگر ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ مرکز میں کسی اور جماعت کی حکومت بنی اور پنجاب کا حکمران کوئی اور ٹھہرا۔ سیاسی ماہرین اس کی وجہ پنجاب کے اندر پائی جانے والی تفریق کو قرار دیتے ہیں۔
اگر سنہ 2002 کے عام انتخابات میں پنجاب کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو پنجاب میں ق لیگ کو اکثریت ملی تھی اور یہ جماعت مرکز میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئی تھی۔
سنہ 2008 میں ن لیگ پنجاب میں اکثریت حاصل کرتی ہے مگر مرکز میں حکومت پیپلز پارٹی بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ آغاز میں پی پی پی نے ن لیگ کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائی مگر پھر یہ جوڑ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔
سنہ 2013 میں ن لیگ نے پنجاب میں واضح اکثریت حاصل کی اور پھر وفاق میں بھی حکومت بنائی۔ سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ن لیگ کی قیادت کو مختلف مقدمات اور قید و بند کا سامنا رہا اور ان حالات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ عمران خان نے خاص طور پر فیصل آباد اور لاہور میں ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچایا۔
سنہ 2024 کے عام انتخابات سے قبل عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں کو مقدمات اور قید و بند کا سامنا ہے اور اس بار ان کے پاس انتخابات کے لیے اپنی جماعت کا انتخابی نشان بلا بھی نہیں۔
اس بار خاص بات چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی لاہوری سیاست میں انٹری ہے۔ تو آئیے ماہرین کے پاس چل کر معلوم کرتے ہیں کہ اب کی بار پنجاب کی سیاست کا رخ کیا ہو سکتا ہے؟
وسطی، شمالی اور جنوبی پنجاب کی سیاست
پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ جس جماعت کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہوتی ہے اس کے لیے پنجاب کے رستے صاف کیے جاتے ہیں اور پھر ایسی جماعت کو بلوچستان کی باپ اور کراچی کی ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق پنجاب ملک میں طاقت کی بنیاد ہے۔
پروفیسر وسیم کے مطابق دس سال تک پنجاب پر ن لیگ کا راج رہا اور پھر سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے ذریعے ن لیگ کی یہ اکثریت ختم کر دی گئی۔ ان کے مطابق اب بظاہر ن لیگ کے لیے دوبارہ پنجاب میں ماحول سازگار کیا جا رہا ہے اور عمران خان کی جماعت کے لیے منظم طور پر میدان تنگ کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو بھی پنجاب کے بل پر وزارت عظمیٰ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
پروفیسر محمد وسیم کے مطابق پنجاب کے اقتدار پر اتنی واضح سبقت کو کم کرنے اور باقی تین صوبوں میں احساس محرومی کو کم کرنے کے لیے سینیٹ یعنی ایوان بالا کا تصور متعارف کرایا گیا، جہاں تمام صوبوں میں برابری کی سطح پر نشستیں تقسیم ہوتی ہیں۔
تاہم ان کے مطابق سینیٹ کو ابھی اتنا طاقتور نہیں بنایا گیا اور اس کے بغیر بھی قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہو جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا پنجاب سے ’صفایا‘ کیسے ہوا؟
پروفیسر محمد وسیم کے خیال میں جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک منظم انداز سے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے ختم کیا گیا۔
پروفیسر وسیم کے مطابق آمریت کے اس دور میں علما کی (مذہبی) جماعتوں کا اثرورسوخ بڑھایا گیا اور پھر ایک ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کا تصور متعارف کرایا گیا تا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حکومت قائم رہے۔ ان کے مطابق نگران حکومت کے ذریعے بھی پیپلز پارٹی کا پنجاب سے بستر گول کیا گیا۔
ان کے مطابق پنجاب کی سیاست میں واحد مضبوط جماعت پی پی پی کا اثر کم کرنے کے لیے سنہ 1985 میں غیر جماعتی انتخاب کرائے گئے، جس سے ایک جماعت سے پنجاب دو جماعتوں میں تقسیم ہو گیا یعنی اس صوبے میں دو جماعتی نظام آ گیا۔
ان کے مطابق جنرل ضیا نے یوں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پی پی پی کو ملنے والا اقلیتوں کا ووٹ بھی تقسیم کر دیا۔
پروفیسر محمد وسیم کے مطابق اس کے بعد پھر پیپلز پارٹی پنجاب میں واپس نہیں آ سکی اور ایک ’اِیتھنک‘ (نسلی) پارٹی بن کر رہ گئی۔
ان کے مطابق جب پی پی پی کا اثر پنجاب سے ختم ہوا تو ’سٹیٹس کو‘ کے طور پر پنجاب کی اشرافیہ میں ن لیگ کا قبضہ ہو گیا، جو ابھی بھی برقرار ہے۔
پروفیسر وسیم کے مطابق سنہ 2018 میں جب ن لیگ کو منظر سے ہٹانا تھا تو پھر جہانگیر ترین جیسے کاروباری سیاستدان سامنے آئے۔ پروفیسر وسیم کے مطابق ابھی بھی وہی پیٹرن ہے اور پنجاب کی سیاست الیکٹیبلز کے ہاتھوں میں ہی ہے۔
ان کی رائے میں ’لاڈلا‘ کے تاثر کے ذریعے ایک ہوا بنائی جاتی ہے اور یہ ایک پیغام ہوتا ہے کہ کس جماعت کو ووٹ دینا ہے۔
پروفیسر وسیم کے مطابق سینٹرل پنجاب کے علاقے جن میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی ڈویژن شامل ہیں، نتائج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جہاں سے پنجاب کی اکثریتی نشستوں کا تعین ہو جاتا ہے۔
’جنوبی پنجاب مستقبل کی حکومت کا ضامن‘
لمز میں پولٹیکل سائنس اور سوشیالوجی کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر عمیر جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب کے مختلف خطے یہ طے کرتے ہیں قومی اسمبلی میں اکثریت کس جماعت کی ہو گی۔
ڈاکٹر عمیر جاوید کی رائے میں یہ جنوبی پنجاب طے کرتا ہے کہ وفاق میں حکومت کون بنائے گا۔ ان کے مطابق جب سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب میں آدھی نشستیں حاصل کر لیں تو پھر اس نے وفاق میں حکومت بھی بنا لی۔
اسی طرح سنہ 2013 میں ن لیگ جنوبی پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تو پھر وفاق بھی اس کے ہاتھوں میں آ گیا۔ عمیر جاوید نے مزید کہا کہ سنہ 2018 میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کی وجہ سے ہی نمایاں اکثریت حاصل کی اور مرکز میں حکومت بنائی۔
ڈاکٹر عمیر جاوید کے مطابق جنوبی پنجاب میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی حیثیت نہیں بنا سکی اور اس خطے کو کوئی بھی اس کی شناخت دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی سرائیکی صوبے کا نعرہ لگاتی ہے مگر عملی طور پر اس پر کوئی پیشرفت ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
عمیر جاوید کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے جنوبی پنجاب میں ووٹ بینک بنانے کے لیے کوئی خاص جدوجہد بھی نہیں کی۔ ان کی رائے میں جنوب میں ابھی آزاد امیدوار، الیکٹ ایبلز اور بڑے جاگیردار خاندان ہی سیاست کا رخ متعین کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی وڈیروں کے ساتھ ساتھ لوئر مڈل کلاس کی بھی جماعت ہے۔ ’وہاں پی پی پی نے لوگوں کو کلچرل شناخت دی ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی نظریاتی تشخص نہیں بنا سکی۔‘
ڈاکٹر عمیر جاوید کے مطابق لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ ڈویژن میں ن لیگ پہلے بھی اکثریت حاصل کر چکی ہے مگر جب تک جنوب ہاتھ نہیں آتا تو پھر معاملات درست سمت میں آگے نہیں بڑھتے۔
’سیاسی جماعتیں صوبوں میں بٹ گئیں‘
طاہر مہدی ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ’لوک سجاگ‘ کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جب سے ان کا مالی حصہ برابری کی سطح پر ملنا شروع ہوا تو پھر ہر صوبے نے اپنی ایک جماعت بنا لی ہے۔
ان کی رائے میں اس وقت پی پی پی سندھ، ن لیگ پنجاب اور تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں تاہم ان کے مطابق یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ تحریک انصاف نے گذشتہ عام انتخابات میں کراچی، لاہور اور پشاور سے نمایاں ووٹ حاصل کیے اور یوں اس جماعت نے قومی جماعت کے طور پر بھی اپنا لوہا منوایا۔
ان کے مطابق تحریک انصاف کی پنجاب میں جڑیں مضبوط ہونے کی وجہ صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ کچھ ایسے اور عوامل بھی ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طاہر مہدی کے مطابق نوجوانوں کی بڑی تعداد اب پرانی سیاسی جماعتوں کے سٹیٹس کو سے نالاں ہیں۔
طاہر مہدی کے مطابق سنہ 2018 سے لے کر اب دو کروڑ نئے ووٹرز کا اضافہ ہوا جبکہ سنہ 2013 سے اب تک چار کروڑ نئے ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف پر تمام تر پابندیوں کے باوجود ابھی بھی اس کی پنجاب میں مقبولیت سے انکار ممکن نہیں۔
’جی ٹی روڈ کی سیاست بدل چکی ہے‘
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر طاہر ملک کے مطابق جی ٹی روڈ کی سیاست تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ان کی رائے میں اب یہاں ذات، برادری اور دھڑے کی سیاست تبدیل ہو چکی ہے۔
ان کے خیال میں اب گجرات کے چوہدری برادرن نشستیں نہیں نکال پا رہے ہیں اور خود ان میں بھی تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے۔
طاہر ملک کے مطابق ماضی میں ان علاقوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے تھانہ، کچہری اور حکومتی مشینری کے ذریعے نتائج حاصل کیے جاتے تھے مگر اب یہاں کی سیاست میں نئے عوامل شامل ہو گئے ہیں۔
ان کے مطابق ان علاقوں میں ایک طرف کاریگر اور مزدور طبقات کی تعداد زیادہ ہے تو دوسری طرف خاص طور پر پھالیہ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات سے لوگوں کی بڑی تعداد بیرونی ممالک چلی گئی اور اب یہاں باہر کا پیسہ بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے، جس سے مڈل کلاس کے حجم میں بھی اضافہ ہوا۔
ان کے مطابق اب یہاں سوشل سٹیٹس اچھا ہونے سے لوگ مقامی اجارہ داری کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔
طاہر ملک کے مطابق پہلے یہاں سے نوجوان زیادہ تر پنجاب یونیورسٹی کا رخ کرتے تھے مگر اب ان علاقوں میں بھی اعلیٰ تعلیم کے ادارے بن گئے ہیں اور لڑکیاں بھی تعلیم یافتہ ہو گئی ہیں۔ ان کے مطابق اب دیہی پنجاب کا تصور سکڑ کر ہر طرف اربن کلچر ہی عام ہو گیا ہے۔
الیکشن امور کی کوریج کرنے والے صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے صرف پنجاب کو ہی اپنا مرکز بنایا ہوا ہے جہاں 141 نشستوں پر اس جماعت نے 130 امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ بہاولپور اور گجرات میں دو نشستیں ق لیگ کے حق میں ن لیگ نے چھوڑی ہیں جبکہ ڈی جی خان اور بھکر کی نشستوں کے لیے امیدواروں کو ٹکٹ جاری نہیں کیے ہیں۔
ان کے مطابق سات نشستوں پر جہانگیر ترین کی پارٹی کے ساتھ ن لیگ نے اتحاد کیا تاہم یہ دلچسپ پہلو ہے کہ ان سات میں سے تین حلقوں میں مخالف امیدوار ن لیگ کے ان حلقوں میں سابق امیدوار ہی ہیں۔
’وہ اگر یہ انتخابات جیت جائیں گے تو پھر زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ن لیگ میں ہی شامل ہوں گے۔‘
ان کے مطابق یوں ’ن لیگ نے پنجاب کی 141 نشستوں میں سے 139 میں اپنی ’فیلڈنگ سیٹ‘ کر رکھی ہے۔‘
ان کے مطابق لیہ، مظفرگڑھ، کوٹ ادو، ملتان اور رحیم یار خان ایسے ضلعے ہیں جہاں پی پی پی اس بار بھی بہتر نتائج کی توقع رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی نشست پر پیپلز پارٹی کی نظریں مرکوز ہیں۔
پی پی پی کی نظر پی ٹی آئی کارکنان اور امیدواروں پر
ماجد نظامی کے مطابق اس بار پنجاب کی سیاست میں الیکشن کے بعد ایک پہلو اور بھی شامل ہے اور وہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کا ہے۔ ان کی رائے میں پیپلز پارٹی کی یہ کوشش ہے کہ ان جیتنے والے آزاد امیدواروں سے بارگین کیا جائے اور پھر جنوبی پنجاب سے بھی کچھ نشستیں حاصل کر کے مرکز میں اپنی پوزیشن بہتر بنائی جائے۔
واضح رہے کہ اس وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو لاہور میں اپنی انتخابی مہم میں بھی مصروف ہیں اور انھوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے کارکن میرا ساتھ دیں، انتقام کی سیاست دفن کردوں گا۔‘
ماجد نظامی کے خیال میں بلاول بھٹو اس وجہ سے بھی لاہور سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تا کہ وہ پنجاب میں اپنے کارکنان کو متحرک کر سکیں۔ ان کے مطابق اسی مقصد کے لیے سنہ 2018 میں بلاول بھٹو نے مالاکنڈ سے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور 18000 ووٹ حاصل کیے تھے۔
ان کی رائے میں ن لیگ ایسی جارحانہ حکمت عملی اختیار نہیں کرتی اور نہ ہی پنجاب کے باہر دوسرے صوبوں سے زیادہ نشستوں کی امید لگائے بیٹھی ہے۔
طاہر مہدی کے مطابق جب 2008 میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل ٹوٹا تو پھر اس بکھرے ہوئے ووٹ کا فائدہ تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کو پہنچا۔
ان کی رائے میں پیپلز پارٹی اب پنجاب میں مہم چلا رہی ہے اور بلاول کی مہم کافی بڑی ہے۔ ان کے خیال میں اب اگر تحریک انصاف کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو پھر اس سے سب ہی سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گے اور اس وجہ سے بلاول بھٹو بھی تحریک انصاف کے کارکن کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لوک سجاگ کی ہی فاطمہ رزاق کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو اپنے آپ کو قومی سطح کا رہنما بنانا چاہتے ہیں اور ان کا سندھ سے نکل کر لاہور آنے کا مقصد بھی یہی ہے۔
ان کے مطابق اس الیکشن میں ’گراؤنڈ پاپولیرٹی‘ بہت کم ہے اور کسی جماعت نے ابھی تک ’ڈور ٹو ڈور‘ مہم بھی شروع نہیں کی۔
فاطمہ رزاق کی رائے میں سیاسی جماعتیں ابھی انتخابات پر ’فوکس‘ نہیں کر رہی ہیں۔
ماجد نظامی اس بات سے متفق ہیں کہ تحریک انصاف کی مقبولیت لاہور سمیت پنجاب میں موجود ہے مگر ان کے مطابق اچھے نتائج کا تعلق الیکشن ڈے پر تحریک انصاف کے کارکنان کی سرگرمی پر بھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں تحریک انصاف کے پاس افرادی قوت بہتر میسر ہو گی اور وہاں یہ جماعت بہتر نتائج دینے کی پوزیشن میں ہو گی۔
ڈاکٹر عمیر جاوید کے مطابق جی ٹی روڈ کی سیاست میں انتخابات میں کسی ایک ہی جماعت کو اکثریت حاصل رہی ہے اور اس بار تحریک انصاف کے لیے اس وجہ سے بھی مشکل صورتحال ہو گی کہ اس کی قیادت جیل میں ہے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ’بلا‘ تک بھی میسر نہیں۔
عمیر جاوید کی رائے میں فیصل آباد ڈویژن میں ن لیگ کبھی حاوی نہیں ہو سکی ہے اور اس نے سنہ 2018 میں نارووال اور سرگودھا میں کلین سویپ کیا تاہم وہ کہتے ہیں کہ سینٹرل پنجاب میں اب تحریک انصاف نے بھی اپنی شناخت بنائی ہے، جس کا نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔