پی ٹی آئی کی اچھوتی ڈیجیٹل انتخابی مہم جسے کبھی ’عمران خان کی آواز‘ تو کبھی ’بندشیں‘ جگائے رکھتی ہے
- مصنف, محمد صہیب
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
گذشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹک ٹاک جلسے میں اچانک سعودی عرب کے شہر مکہ میں خانہ کعبہ کے براہ راست مناظر دکھائے جانے لگے جس کے بعد عمران خان سمیت پاکستان تحریکِ انصاف کے دیگر رہنماؤں کے لیے دعائیں کی جانے لگیں۔
یہ منظر کسی سیاسی جلسے کے لیے خاصا غیر معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن گذشتہ روز پی ٹی آئی کے ٹک ٹاک جلسے کے اختتام پر یہ مناظر اس وقت دیکھنے کو ملے جب ایک پی ٹی آئی کارکن نے جلسے میں مکہ سے شرکت کی۔
یہ ورچوئل جلسہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہا اور اس میں شریک ہونے والے پی ٹی آئی کے اکثر رہنما یا تو روپوش تھے یا پھر ملک سے باہر مقیم ہیں۔ جلسے سے پی ٹی آئی کے روپوش رہنما حماد اظہر نے بھی خطاب کیا جبکہ پاکستان میں اور ملک سے باہر موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے شرکت کی۔
یہ جلسہ صرف ٹک ٹک پر ہی براہ راست نہیں دکھایا جا رہا تھا بلکہ فیس بک، انسٹاگرام پر لائیو سٹریم ہو رہا تھا اور اس کے علاوہ ایکس پر سپیس میں بھی لائیو تھا۔
یہ جلسہ ایک ایسے موقع پر منعقد ہو رہا تھا جب سنیچر کی دوپہر اسلام آباد کی ایک عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی شادی کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے انھیں سات سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔
گذشتہ ایک ہفتے کے دوران عمران خان کو تین مختلف مقدمات میں قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ جن میں نکاح کیس میں سزا کے علاوہ عمران اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی کو 14، 14 سال قید کی سزا، توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 10، 10 سال قید شامل ہیں۔
تاہم جلسے کے دوران جس بات پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا تھا وہ عمران خان سے ہونے والی ’ناانصافی‘ کا جواب ووٹ کے ذریعے دینے پر تھا۔ اس کے علاوہ جلسے کے دوران الیکشن کے دن کی حکمتِ عملی، امیدواروں کے انتخابی نشانوں کے بارے میں آگاہی پر بھی زور دیا گیا۔
عدالتوں سے ایک ہفتے کے دوران تین بڑے فیصلے آنے کے بعد اس حقیقت کو نظر انداز کرنا بہت آسان نہیں ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات محض چار دن دور ہیں۔
ایک جانب پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیا جا چکا ہے، متعدد کارکن اور رہنما جیل میں ہیں، اکثر روپوش ہیں یا پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور جماعت کے بانی کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں قید کی سزائیں مل رہی ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی حکمتِ عملی خاصی جارحانہ اور اچھوتی رہی ہے۔
مشکلات میں گھری پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر اب بھی اتنی متحرک کیسے ہے اور ان انتخابات سے قبل پارٹی نے سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت میں اضافے اور کارکنوں تک پہنچنے کے لیے کون سے نئے حربے استعمال کیے ہیں؟
’ورچوئل جلسہ کیا ہوتا ہے؟‘ عمران خان کا سوال
پاکستان تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہی کرنے والے جبران الیاس امریکہ میں مقیم ہیں اور وہیں سے پارٹی کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی پر نظر رکھتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے صرف ان چیزوں کے حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جن کی ہمیں وقت کے ساتھ ضرورت محسوس ہوتی رہی اور اس حساب سے جدید حل خود بخود سامنے آتے رہے۔‘
جبران بتاتے ہیں کہ یہ سب کراچی کے ملینیئم مال کے جلسے سے شروع ہوا جب پی ٹی آئی کا جلسہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے رکوا دیا گیا۔
’اس وقت ہم نے سوچا کہ کیا ہم اسے آن لائن لے کر جا سکتے ہیں یا نہیں، ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم یہاں روپوش رہنماؤں سے خطاب کروائیں گے اور اپنے اوورسیز پاکستانیوں کو کہیں گے کہ وہ باہر نکلیں اور گانے وغیرہ لگا کہ جلسے کا ماحول بنائیں۔
’یہ بات جب ہم نے پی ٹی آئی کی قیادت کو بتائی تو کچھ تو ان کی سمجھ میں آئی لیکن کچھ نہیں آئی۔ پھر ہم یہ آئیڈیا لے کر خان صاحب کے پاس گئے تو انھوں نے پوچھا کہ ورچوئل جلسہ کیا ہوتا ہے کیا تم سب کو زوم کال پر بلاؤ گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پھر ہم نے جب انھیں سمجھایا تو انھیں یہ خیال پسند آیا اور انھوں نے کہا کہ میں جیل سے کچھ نوٹس لکھ کر دیتا ہوں وہ بھی پڑھ دینا۔ ‘
جبران کہتے ہیں کہ ہم یہ جلسہ کر تو رہے تھے لیکن پی ٹی آئی کا کوئی بھی جلسہ خان صاحب کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہاں ہمیں یہ مناسب نہیں لگ رہا تھا کہ ہم میں سے کوئی خان صاحب کے نوٹس پڑھے تو ہمارے ذہن میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ان کی آواز کلون کرنے کا خیال آیا۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے ہم نے الیون لیبز نامی ٹیکنالوجی کمپنی کے اے آئی ٹول کا سہارا لیا۔
’یہ ایک مشکل مرحلہ تھا جس میں ہم خان صاحب کی آواز کا سو فیصد کلون نہیں بنانا چاہتے تھے کیونکہ پھر وہ بعد میں ڈیپ فیک وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں بہت محنت کرنی پڑی۔‘
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے عمران خان کی اے آئی وائس کلوننگ اس ورچوئل جلسے میں گذشتہ برس دسمبر میں چلائی گئی اور خاصی مقبول ہوئی۔ اس دوران انٹرنیٹ کی بندش کے باعث ’جن لوگوں کو معلوم نہیں بھی تھا انھیں بھی اس بارے میں علم ہو گیا۔‘
واٹس ایپ چینلز، فیس بک باٹ اور وہ ویب سائٹ جو بار بار بند ہوئی
پی ٹی آئی کو درپیش متعدد مسائل میں سے ایک الیکشن سے ٹھیک ایک ماہ قبل بلے کے نشان سے محرومی تھی۔ اس کے باعث اس کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی اجازت ملی اور مختلف انتخابی نشانات الاٹ کر دیے گئے۔
اس کے علاوہ جماعت کو متعدد مواقع پر جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی رہی اور متعدد امیدوار جیلوں میں قید ہیں یا روپوش ہیں۔ ایسی صورتحال میں عوام تک الیکشن سے قبل انتخابی نشان اور امیدواروں کے ناموں سے متعلق پیغام پہنچانا سوشل میڈیا ٹیم کی ذمہ داری ٹھہری۔
اس پر پی ٹی آئی کی جانب سے پہلے امیدواروں کی فہرست ان کے انتخابی نشانوں کے ساتھ اپنی آفیشل ویب سائٹ پر لگائی گئی تاہم اس پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی، اس کے بعد جماعت کی جانب سے علیحدہ ویب سائٹ بنائی گئی، اس تک بھی اب پاکستان میں رسائی وی پی این کے بغیر ممکن نہیں۔
جبران الیاس کا کہنا ہے کہ ’اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ ہم نے گٹ ہب پر ویب سائٹ بنا لی جس پر پابندی اس لیے نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ اسے پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں آئی ٹی کمیونٹی استعمال کرتی ہے۔‘
تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اس بارے میں اس کے علاوہ بھی اقدامات کیے گئے اور فیس بک پر عمران خان کی پروفائل پر ایک چیٹ باٹ بنا دیا جہاں صارفین جا کر اپنا حلقہ نمر درج کریں تو انھیں عمران خان کی جانب سے پی ٹی آئی کے امیداوار اور اس کے انتخابی نشان کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کر دی جاتی ہیں۔
اسی طرح ہر قومی اسمبلی کے ہر حلقے کا اپنا واٹس ایپ چینل بھی ہے، یعنی کل 266 چینل، جہاں جا کر ووٹرز اپنے حلقے میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں جان سکتے ہیں اور انھیں ووٹ دینے کے طریقہ کار سمیت دیگر معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی رابطہ ایپ ہے جہاں امیدواروں کے انتخابی نشان موجود ہیں۔ اس ایپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے جبران کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ الیکشن کے دن انٹرنیٹ بند کر دیں گے اس لیے ہم نے ایپ کے ذریعے معلومات آف لائن دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا اعلان ہم کچھ روز میں کر دیں گے۔‘
’زیادہ تر نوجوان ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر ہیں‘
جبران کے مطابق پی ٹی آئی کی اس سوشل میڈیا حکمتِ عملی کی بنیاد دراصل ووٹرز کے اعداد و شمار ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مرتبہ 18 سے 45 سال کی عمر کے ووٹرز 67 فیصد کے درمیان ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے یہ دیکھا کہ نوجوان فیس بک اور ایکس سے زیادہ یوٹیوب اور ٹک ٹاک استعمال کر رہے ہیں ہے اور شہروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد انسٹاگرام استعمال کرتی ہے تو ہم نے اس اعتبار سے حکمتِ عملی بنائی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ٹک ٹاک پر جانے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ دیہاتوں میں اس کی پہنچ کتنی زیادہ ہے اور وہاں لوگوں کے لیے بڑے رہنماؤں سے بات کر پانا بہت بڑی بات ہے۔
’اگر آپ پڑھے لکھے نہ بھی ہوں تو ویڈیو مواد ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ ٹک ٹاک کے ذریعے ہمیں ایسے لوگوں تک رسائی ملی جو ہمارے پولنگ ایجنٹس بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر صارفین ویڈیو بنانے کا فن جانتے ہیں اور بہترین اداکاری کر لیتے ہیں۔‘
ٹک ٹاک پر پی ٹی آئی سے متعلق مواد پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سے اکثریت عمران خان کی تقریریں اور کلپس ہیں لیکن اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے کارکنان نے ایسی ویڈیوز بھی بنائی ہیں جو خاصی دلچسپ ہیں اور ان میں آٹھ فروری کو ووٹ ڈالنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی ٹیم کی جانب سے اس ضمن میں متعدد مقامی زبانوں میں بھی ووٹ ڈالنے کی ویڈیوز بنائی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی فراہم کی جا سکے۔
اس کے علاوہ انسٹاگرام پر بھی انسٹا لائیو کے ذریعے ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی نئی بحث کی جاتی ہے۔
مختلف حلقوں میں لوگوں کو پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کے حوالے سے کالز بھی آئیں لیکن جبران کے مطابق یہ امیدواروں کی اپنی کوشش تھی۔ اسی طرح دی اکانومسٹ میں عمران خان کے آرٹیکل کے بارے میں بھی ان کے مطابق جماعت کے وکلا کو معلوم تھا۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی جانب سے یوٹیوب اور فیس بک پر تشہیری مہم بھی چلائی گئی ہے جس میں زیادہ تر عمران خان کی تقریر کے حصے لگائے گئے ہیں کیونکہ جبران کے مطابق ’پی ٹی آئی کارکن خان صاحب کو دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان میں موجود پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کی ٹیم کے اراکین کو بھی پکڑا گیا تھا۔
جبران کے مطابق ’ہم سب اس دوران صدمے میں تھے کیونکہ ہم لوگ ہی ففتھ جنریشن وارفیئر کے ذریعے انڈیا کو ایکسپوز کر رہے تھے اور پھر ہمارے ساتھ ہی یہ سلوک ہونے لگا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس سے سنبھلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا، ہماری ٹیم میں سب ہی رضا کار ہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ اگر ہم پیسے لے کر کام کر رہے ہوتے تو اتنے اچھے نہ ہوتے۔‘
’جس چیز پر بندش لگانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اتنا ہی باہر نکلتی ہے‘
پی ٹی آئی کی اس حکمتِ عملی کا جائزہ لینے کے لیے ہم نے ٹیکنالوجی اور انسانی حقوق پر کام کرنے والی صحافی رمشا جہانگیر سے بات کی جو ماضی میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کی گئی پوسٹس پر تحقیق کر چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پی ٹی آئی کی یہ حکمتِ عملی صرف اس الیکشن کے لیے نہیں رہی بلکہ سنہ 2013 اور 2018 کے الیکشن میں بھی یہی صورتحال تھی کہ ان کی سوشل میڈیا حکمتِ سب سے بہتر تھی۔
’ٹریننگ اور رضاکاروں کو کوآرڈینیٹ کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جو وہ پہلے سے کرتے آ رہے ہیں اور ویب سائٹ بھی ان کی بہتر تھی اور انٹرنیٹ کے ذریعے وہ فنڈ بھی اکٹھے کر چکے ہیں۔ تو اس حوالے سے ان کے پاس تجربہ بہت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت سب سے اہم مسئلہ بندشوں کا ہے اور حکومت کی کوشش رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو پابندیوں کے ذریعے کنٹرول کیا جائے۔ لیکن جتنا آپ انٹرنیٹ کے زمانے میں کسی چیز پر بندشیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اتنا ہی باہر نکلتی ہے۔ جیسے ٹک ٹاک جلسے کے بارے میں زیادہ تر افراد کو پتہ بھی نہیں ہو گا لیکن جب انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے تو سب کو پتا چل جاتا ہے کہ کچھ ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان کی حمایت کرنے والے زیادہ تر لوگ نوجوان ہے اور وہ سوشل میڈیا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں جو ان کی مقبولیت کی اہم وجہ ہے۔‘
اس صورتحال میں باقی سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر اتنی متحرک دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ رمشا کے مطابق ’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موروثی سیاست کرتے آئے ہیں اور ان کی پرانی سیاسی حکمتِ عملی ہے جو ان کے مطابق کامیاب ہے۔
’ان سے آپ پوچھیں گے کہ ان کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کیا ہے تو ان کے پاس جواب نہیں ہو گا لیکن پی ٹی آئی سے آپ کو اس بارے میں واضح جواب مل جاتا ہے۔‘
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم پر ماضی میں فیک نیوز پھیلانے اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ رمشا جہانگیر کہتی ہیں کہ ’میں خود بھی ان صحافیوں میں سے تھی جن پر پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تھی۔ اس وقت فیکٹ چیک کرنے والے اور تنقید کرنے والے صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جاتا تھا۔
’اب پی ٹی آئی کی کامیابی کی ایک وجہ ان کی بین الاقوامی پہنچ ہے اور دوسرا ان کی کوآرڈینیشن، ان کے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو نئی ٹیکنالوجی اور ہنر جانتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں کامیابی ملتی ہے یا نہیں لیکن یہ پیغام جو پہنچایا گیا ہے کہ آپ انٹرنیٹ پر سینسرشپ کے ذریعے کسی مخصوص بیانیے کو ختم نہیں کر سکتے، یہ بہت ضروری تھا۔‘